تحریر: اقبال حسن آزاد
مرزا غالب نے فرمایا ہے:
نکتہ چیںہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
مگر فی زمانہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو باتیں بنانا خوب جانتے ہیں ۔ بات سے بات نکالنا اور باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا انہیں خوب آتاہے۔ باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں سیاسی رہنماؤں اور میڈیا کا جواب نہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت اس قدر تڑی مڑی ہوگئی ہے کہ اس کو پہچاننا مشکل ہوگیا ہے ۔ آج کل کے سیاسی رہنما تو بجائے رہنمائی کرنے کے عوام کو گمراہ کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ Non-Controversial معاملات کو Controversial بنانے میں انہیں ید طولیٰ حاصل ہے ۔ کسی فرد واحد سے لے کر پوری قوم کو بدنام کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ ایسے ہی سیاست دانوں کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ایک لفظ ہے نکتہ بینی جس کے معنیٰ ہیں ناز ک خیالی، باریک بینی اورایک لفظ ہے نکتہ چینی یعنی عیب جوئی۔ نکتہ چینی اور اعتراض میں ہلکا سافرق ہے ۔ نکتہ چینی کے معنیٰ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، عیب جوئی کے ہوئے جب کہ اعتراض کے معنیٰ عیب جوئی اورنکتہ چینی کے ساتھ ساتھ حجت اور مخالفت کے بھی ہوتے ہیں۔ جس طرح ادب کی دو قسمیں ہوتی ہےں یعنی ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب اسی طرح اعتراض کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی اعتراض برائے اصلاح اور اعتراض برائے اعتراض ۔ اورجس طرح اہل عقل و دانش نے ادب برائے ادب کے نظریے کوRejectکردیا اسی طرح اہل عقل ودانش نے اعتراض برائے اعتراض کے Concept کو بھی خارج کردیا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر برات میں ایک دو ایسے حضرات ضرور شامل رہتے ہیں جن کا مقصود و مطلوب محض اعتراض کرنا ہوتاہے ۔ اپنے گھر میں چاہے انہیں دال روٹی بھی میسر نہ ہوتی ہو مگر براتی بن کر اپنی عقابی نظر اور خرافاتی ذہن سے اہل خانہ کو عاجز کردیتے ہیں ۔ کبھی کہیں گے کہ Cold Drink اتنا ٹھنڈا تھا کہ پیا نہیں جاسکا ۔ چائے اتنی گرم تھی کہ میرا منہہ جل گیا۔ چاول کچھ کڑا رہ گیا تھا۔ پاپڑ بالکل ملائم ہوگیاتھا۔ سالے نے خصی کی جگہ بڈھی بکری کا گو شت کھلادیا۔ میرا پیٹ خراب ہوگیا۔ سونے کا انتظام بھی ٹھیک نہیں تھا۔ رات بھر مچھر ستاتے رہے۔ بلکہ بعضے تو Coil پر ہی آرام فرمارہے تھے ۔ پتہ نہیں کیسا Coilتھا ۔وغیرہ وغیرہ ۔پٹنہ سیٹی میں ایک نواب صاحب ہوا کرتے تھے۔ جب ان کی دختر نیک اختر کی شادی خانہ آبادی طے ہوئی تو موصوف نے اپنے منشی جی سے فرمایا کہ منشی جی ہر شادی میں چند معترض حضرات شریک ہوجاتے ہیں جو طرح طرح کے اعتراضات کر کے تقریب کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں ۔ لہٰذا میں چاہتاہوں کہ ایسا Fool-Proof انتظام ہوکہ اچھے اچھے نکتہ چینوں کی بولتی بند ہوجائے ۔ لہٰذا حسب الحکم منشی جی نے بڑا زبردست انتظام کیا اورا پنے تئیں کوئی Loop -Hole نہیں چھوڑا ۔ اب خدا کا کرنا ایساہوا کہ مہمانوں کی تواضح کے لیے جو شاہی باقر خوانی تیار کی گئی تھی اس میں اس قدر میوہ جات کی آمیزش کی گئی کہ روٹی ڈبل سائز کی ہوگئی ، چنانچہ یہ طے پایا کہ اسے دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ پلیٹ میں آسانی سے سما سکے ۔ اب لیجئے اعتراض کرنے والوں کو ایک نادر موقع ہاتھ آگیا۔ اس تقریب سعید میں ایک شاعر صاحب بھی تھے ۔ عقد مسنونہ کے بعد جب دسترخوان چنا گیاتو ان کی رگ شاعری پھڑک اُٹھی اورکھانا ختم ہوتے ہوتے ایک سہرا تیار ہو گیا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ دلہن کے والد صاحب کا نام کمال تھا اور دلہن کا نام نامی اسم گرامی تو کچھ اور تھا مگر چھوٹی شہزادی کے نا م سے معروف تھیں ۔چنانچہ
دسترخوان بڑھائے جانے کے بعد جب مشاعرے کی محفل جمی تو سہرا پڑھا گیا:
مبارک ہو چھوٹی کی شادی مبارک
کمال آدھی روٹی پہ شادی مبارک
اور پھر :
کمال آدھی روٹی پہ شادی مبارک
کمال آدھی روٹی پہ شادی مبارک
کی وہ تکرار ہوئی کہ توبہ ہی بھلی۔ یعنی آدھی روٹی پہ شادی ہو گئی۔واقعی کمال ہو گیا۔
جس طرح مچھروں کی کئی قسمیں ہوتی ہے اسی طرح اعتراض کرنے والے بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ بعض مچھر محض اپنا پیٹ بھر نے کے لیے انسانوں کا خون چوستے ہیں جب کہ بعض مچھروں کا مقصد صرف انسانوں کا خون چوسنا نہیں ہوتابلکہ ساتھ ہی ساتھ انہیں ملیریا ‘ ڈینگو اور گردن توڑ بخار میں مبتلا کرنا بھی ہوتاہے ۔ آپ نے اکثر ادبی رسالوں میں مختلف مکتوب نگاروں کےایسے خطوط ضرور دیکھے ہوں گے جن میں مکتوب نگار یہ فرماتے نظر آتے ہیں کہ آپ نے فلاں شاعر کی تعریف وتوصیف کیوں کی جب کہ وہ اس کا مستحق نہیں تھا یہ تووہی بات ہوگئی کہ مجھے اس با ت کا غم نہیں کہ میں فیل ہوگیا ۔ صدمہ تو اس بات کا ہے کہ وہ سالا کیوں پاس ہوگیا۔ مرزا غاب نے فرمایا ہے:
اب میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا
غالب کا دل تو اہل دنیا کے رویے سے جل گیا تھا مگر یہاں یا ر لوگوں کا دل دوسروں کی کامیابی دیکھ کر جل اٹھتا ہے ۔ یعنی اوروں کی کامیابی نہ ہوگئی ماچس کی تیلی یا گیس لائٹر ہوگئی۔ شہر یار صاحب کا بہت مشہور شعر ہے :
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان ساکیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
شاعر نے خودہی سوال کیا اور خودہی اس کا جواب بھی دے دیا ۔ انہیں صاف صاف یوں کہنا چاہئے تھا کہ چونکہ ہرشخص کے سینے میں جلن ہے اسی لیے وہ پریشان ہے ۔
اورجس طرح عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے اسی طرح جلن کی بوبھی چھپائے نہیں چھپتی ہے :
آرہی ہے چمن سے کباب کی بو
کسی کلی کا دل جل رہا ہوگا
کچھ احباب کو دوسروں کو اول نمبر پر دیکھ کر جلن ہونے لگتی ہے ۔ اگر ہر شخص اپنے آپ کو پہلے نمبر پر شمار کرنا شروع کر دے تو پھر دوسرا ‘ تیسرا چوتھا نمبر کہاں جائے گا ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ الکشن سے پہلے ہرا میدوار اپنے آپ کو فتحیاب قرار دیتاہے مگر ہوتا کیا ہے ۔ کوئی تو لاکھوں ووٹوں سے کامیاب ہوتاہے اورکسی کی ضمانت ضبط ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ شکست خوردہ امیدواروں کو جیتنے والے امیدوار سے جلن ہوگی۔ ان کا حال یہی ہے کہ:
لکڑی جل کوئلہ بھئی کوئلہ جل بھئی راکھ
میں ابھاگن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ
یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو تو خوب پہچانتے ہیں مگر اپنے قدوقامت کا اندازہ نہیں لگاپاتے ۔ میر تقی میر نے فرمایا ہے:
پہنچا جو آپ کو تو میں خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
یعنی انسان جب اپنے آپ کو پہچان لیتاہے تو وہ گویا خدا کو پہچان لیتاہے ۔ اور جب تک انسان خود کو نہیں پہچانتاوہ اپنے آپ سے بھی دور رہتاہے۔ ہمارے ایک مرحوم بزرگ کا یہ حال تھا کہ اگر کسی تقریب کے دعوت نامے میں ان کا نام پہلے نمبر پر نہیں ہوتاتھا تو وہ اس میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جولوگ انہیں دل سے مدعو نہیں کرنا چاہتے تھے وہ جان بوجھ کر ان کا نام پہلے نمبر پر نہ دے کر درمیان میں کہیں ڈال دیتے تھے ۔ اور اس طرح ایک پلیٹ کھانا بچالیتے تھے۔ خیر یہ تو جملہء معترضہ ہوا۔ دوسروں پر اعتراض کرنے والوں، نکتہ چینی کرنے والوں، اپنے دل میں جلن وحسد کوپالنے والوں کے لیے علامہ اقبال کا یہ شعر مشعل راہ ثابت ہو سکتاہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
٭٭٭